Thursday, December 25, 2014

غلطی کی اصلاح

السلام علیکم 
کسی کی غلطی پر یا ایسے کسی کام پر جو جائز نہ ہواور کسی سے سرزد ہوجائے تو اسے تنبیہ کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے ۔ فرض کریں میں نے جان بوجھ کر یا انجانے میں کچھ ایسا کردیا جو صحیح نہیں ہے اور مجھے احساس بھی نہیں ہے تو آپ لوگ مجھے سمجھانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کریں گے ۔ آپ سب لوگ صاحب علم لوگ ہیں اور علم میں مجھ سے کہیں زیادہ ہیں ۔ یقینا" آپ لوگوں جو طریقہ بتائیں گے وہ بہترین ہوگا ۔ 
میرے ناقص علم کے مطابق تو اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھو تو اس کے حق میں اللہ سے دعا کرو کہ اللہ اس کی اس عادت یا کمی کو دور کردے ۔ پھر اسے تنہائی میں سمجھاؤ ، لوگوں کے سامنے ذلیل نہ کرو ۔ اور اگر مجبورا" لوگوں کے سامنے بات کرنی پڑے تو پھر عمومی بات کرو جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ فلاں کام کرتے ہیں 
اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی یاد آگیا ۔ اہل شام میں ایک بڑا بارعب اور قوی شخص تھا اور وہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ وہ کافی دن نہ آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے اسکا حال پوچھا لوگوں نے کہا امیر المومنین اس کا حال نہ پوچھیں وہ تو شراب میں مست رہنے لگ گیا ہے 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے منشی کو بلایا اور کہا کہ اس کے نام ایک خط لکھو ۔ آپ نے خط میں لکھوایا 
منجانب عمر بن خطاب بنام فلاں بن فلاں السلام علیکم ۔ میں تمہارے لیے اس اللہ کی حمد پیش کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ گناہوں کو معاف کرنے والا ، توبہ کو قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا اور بڑی قدرت والا ہے ۔ اسکے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور ہمیں اسکی طرف لوٹ کر جانا ہے 
پھر حاضرین مجلس سے کہا کہ اپنے بھائی کے لیے سب مل کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو پھیر دے اور اسکی توبہ کو قبول فرمائے ۔ سب نے مل کر دعا کی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ خط قاصد کو دیا اور کہا یہ خط اسے اس وقت دینا جب وہ نشے میں نہ ہو اور اس کے سوا کسی کو نہ دینا 
جب اس کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ خط پہنچا تو اس نے پڑھا اور بار بار ان کلمات کو پڑھتا رہا اور غور کرتا رہا کہ اس میں مجھے سزا سے بھی ڈرایا گیا ہے اور معاف کرنے کا وعدہ بھی یاد دلایا گیا ہے ۔ وہ خط پڑھ کر رونے لگا اور شراب نوشی سے توبہ کرلی اور ایسی توبہ کی کہ پھر کبھی شراب کے پاس نہ گیا 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اسکی توبہ کی خبر ملی تو لوگوں سے فرمایا ۔ کہ ایسے معاملات میں تم لوگوں کو ایسے ہی کرنا چاہیے کہ جب کوئی بھائی کسی لغزش میں مبتلا ہوجائے تو اس کو درستی پر لانے کی فکر کرو اور اس کو اللہ کی رحمت کا بھروسہ دلاؤ اور اللہ سے اس کے لیے دعا کرو تاکہ وہ توبہ کرلے ، اور تم اس کے مقابلے پر شیطان کے مددگار نہ بنو ۔ یعنی اس کو برا بھلا کہہ کر یا غصہ دلا کر دین سے دور کردو گے تو یہ شیطان کی مدد ہوگی 
(معارف القران جلد 7 صفحۃ 582)
آپ لوگ اپنی رائے کا اظہار ضرور فرمائیں تاکہ میری رہنمائی ہوسکے ۔ شکریہ

No comments:

Post a Comment