Friday, December 12, 2014

کتنی بدل چکی ھے رُت

کتنی بدل چکی ھے رُت
جذبے بھی وہ نہیں رھے
دل پہ ترے فراق کے 
صدمے بھی وہ نہیں رھے
محفلِ شب میں گفتگو 
اب کے ہوئی تو یہ کُھلا
باتیں بھی وہ نہیں رھیں 
لہجے بھی وہ نہیں رھے
حلیے بدل کے رکھ دئیے 
جیسے شبِ فراق نے
آنکھیں بھی وہ نہیں رھیں
چہرے بھی وہ نہیں رھے
اس کا مہِ جمال بھی 
گویا غروب ھو چلا
اپنے وفورِ شوق کے 
چرچے بھی وہ نہیں رھے
ہوش و خرد گنوا چکے
خود سے بھی دور جا چکے
لوگ جو تیرے تھے کبھی
اپنے بھی وہ نہیں رھے
یہ بھی ھوا کہ تیرے بعد
شوق سفر نہیں رھا
جن پہ بچھے ھوئے تھے دل
رستے بھی وہ نہیں رھے

No comments:

Post a Comment