Monday, December 29, 2014

ایک نظم، ایک دعا

ایک نظم، ایک دعا

ہرے درختوں کی خیر مولا !

بلند شاخوں پہ گھونسلوں کے جڑاؤ

کھالوں میں بہتے پانی

ہواؤں کی پُرسکوں روانی کی خیر مولا!

اناج کی دل فریب خوشبو کو

جھومتی ، لہلہاتی فصلوں کو زندگی کی امان سائیں !

لچکتی بیلوں کا ہر چڑھاوا قبول آقا!

سدا ہو

چھتّوں میں شہد ، مٹکوں میں دودھ ، چاٹی میں چھاچھ سائیں !

پھلوں کے رس اور مٹھاس پر بھی سلامتی ہو

مِرے مھیمن!

ترے کرم کو

میں کیاریوں میں کھِلے گلابوں کا واسطہ دوں

کہ تتلیوں جیسی بیٹیوں کا

تجھے بتاؤں ؟ (مگر نہیں ، تُو تو جانتا ہے )

ہمارے پُتلے بنا کے رکھّے گئے ہیں

کن آتشیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر

غبار کر کے

دھواں بنا کر

کسی بھی صورت

ہمیں اُڑانے پہ بات آکر ٹھہر گئی ہے

تجھے خبر ہے

کہ ان فضاؤں کی زندگی کے لیے ہے لازم

ہزار جانب اُڑان بھرتی ہوئی محبت

فلک سے لے کر زمیں کی تہ تک

تمام اسرار ، سب تغیر

ترے اشارے کے منتظر ہیں

تو سائیں پھر اک صدائے کُن دے

اور اُن پرندوں کو زندہ کر

جو ہماری مٹّی میں مر چکے ہیں

No comments:

Post a Comment