Friday, December 19, 2014

سنو اے زندگانی کے بدن کو نوچنے والو

سنو اے زندگانی کے
بدن کو نوچنے والو
بہا کر خون کا دریا
لگا کر آگ گلشن کو
کیا تم یہ سمجھتے ہو
کہ بازی جیت لی تم نے؟
کسی کا لال چھینا تو
کسی کی گود سونی کی!
کہ ان معصوم بچوں سے 
لیا کس بات کا بدلہ 
بھلا کیا دوش تھا ان کا
یہ لاشے چاند تاروں کے
جنازے پھول کلیوں کے 
اٹھائیں کس طرح سے ہم
وہ ہنستے پھول سے چہرے
بھلائیں کسطرح سے ہم؟
مگر اک بات سن لو تم
ہمارے پاس جگنو ہیں
تمھارے پاس ظلمت ہے
چمن کو روندتے جانا
سراسر بربریت ہے
ستم کی انتہا ایسی 
کبھی پہلے نہیں دیکھی
بدن زخموں سے گھائل ہیں
ہوئی ہے روح بھی چھلنی
بیاں لفظوں میں کیسے میں
کروں تصویر اس غم کی 
جو ان ماؤں نے جھیلا ہے
جو ساری قوم پر یکسر
قیامت بن کے ٹوٹا ہے
مجھے اتنا بتا تو دو
بہا کر خون بچوں کا
بجھا لی پیاس نفرت کی

No comments:

Post a Comment