سنو اے زندگانی کے
بدن کو نوچنے والو
بہا کر خون کا دریا
لگا کر آگ گلشن کو
کیا تم یہ سمجھتے ہو
کہ بازی جیت لی تم نے؟
کسی کا لال چھینا تو
کسی کی گود سونی کی!
کہ ان معصوم بچوں سے
لیا کس بات کا بدلہ
بھلا کیا دوش تھا ان کا
یہ لاشے چاند تاروں کے
جنازے پھول کلیوں کے
اٹھائیں کس طرح سے ہم
وہ ہنستے پھول سے چہرے
بھلائیں کسطرح سے ہم؟
مگر اک بات سن لو تم
ہمارے پاس جگنو ہیں
تمھارے پاس ظلمت ہے
چمن کو روندتے جانا
سراسر بربریت ہے
ستم کی انتہا ایسی
کبھی پہلے نہیں دیکھی
بدن زخموں سے گھائل ہیں
ہوئی ہے روح بھی چھلنی
بیاں لفظوں میں کیسے میں
کروں تصویر اس غم کی
جو ان ماؤں نے جھیلا ہے
جو ساری قوم پر یکسر
قیامت بن کے ٹوٹا ہے
مجھے اتنا بتا تو دو
بہا کر خون بچوں کا
بجھا لی پیاس نفرت کی
Friday, December 19, 2014
سنو اے زندگانی کے بدن کو نوچنے والو
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment