Friday, December 19, 2014

ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں

ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں
شب صحرا سے مگر صبح چمن مانگتے ہیں
وہ جو ابھرا بھی تو بادل میں لپٹ کر ابھرا
اسی بچھڑے ہوئے سورج کی کرن مانگتے ہیں
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
ایسے غنچے بھی تو گل چیں کی قبا میں ہیں اسیر
بات کرنے کو جو اپنا ہی دہن مانگتے ہیں
فقط اس جرم میں کہلائے گنہ گار ، کہ ہم
بہر ناموس وطن ، جامہ تن مانگتے ہیں
ہم کو مطلوب ہے تکریم قد و گیسو کی 
آپ کہتے ہیں کہ ہم دار و رسن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہین نعرے ، لیکن
ہم تو اے وطن ، درد وطن مانگتے ہیں

No comments:

Post a Comment