صبح چہل قدمى كو پارک ميں جانا ہوتا رہتا ہے.. اُس دِن يونہى جى چاہا تو موروں كے پنجرے كے پاس جا كھڑے ہوئے.. يوں تو مور پہلے بھى بہت بار ديكھے تھے ليكن اُس صبح تو لگا كہ جيسے اُن كے ہاں كوئى جشن كا سماں ہے.. يا شائد وه ہر صبح كو يونہى مناتے ہوں.. شائد يونہى ہر سويرے كو نيا سويرا مان كر جھوم جھوم اُس كا استقبال كرتے ہوں..
وه اپنے رنگين پر كھولے گول گول گھومتے.. لگتا تھا جيسے دِل كو بھى اپنے پروں سے باندھے لئے جاتے ہوں.. اُس صبح ميں نے پہلى بار ديكھا كہ وه اپنے پروں كو پورا كھول كر جھنجھناتے بھى ہيں.. كيسى كانوں ميں رَس گھولتى مدھر چھنكار تھى وه كہ جس كى مثال ملنا بھى مشكل..
اُن كو يونہى سرمستى ميں جھومتا چھوڑ جونہى واپسى كو رُخ موڑا تو ايک كريہہ آواز نے قدموں كو جيسے جكڑ ہى ليا.. مُڑ كر ديكھا تو جان كر حيرت ہوئى كہ يہ موروں كے بولنے كى آواز ہے..
ایسا خوبصورت ' ایسی من موہنی اداؤں والا پرندہ.. اور اس پر ايسى کریہہ آواز.......... یقیناً اس میں بھی رَبّ کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہو گی.. لیکن مجھے تو یوں لگا جیسے یہ سب خاص طور سے میرے ہی لئے ہوا ہو.. جیسے مجھے ہی سمجھانے کو خاص طور پر یہ ڈیمونسٹریٹ کیا گیا ہو کہ ظاہری خوبصورتى پر نہ جاؤ.. ظاہرى خوبصورتى دھرى كى دھرى ره جاتى ہے جب زبان سے ادا ہونے والے الفاظ بھدَّے اور زھر بُجھے ہوں..
سچ کہا ہے کسی نے.. " اخلاق ایک دکان ہے اور زبان اس کا تالا.. تالا کھلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا کوئلے کی
Saturday, December 27, 2014
اخلاق
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment