مجھ سے لکنت ہوئی اور بات سنبھالی اس نے
بس کبھی دیکھی نہیں آنکھ کی لالی اس نے
وہ گلے ملتا ہے ملبوس بچا کر اپنا
زندگی کیسی کلف دار بنا لی اس نے
اجنبی سمت میں پرواز تجسّس اس کا
دم بخود گھر سے الگ جھوک بسا لی اس نے
اتنا معدوم ہوا وہ کے نظر سے بچھڑا
لمس کی یاد بھی پوروں سے اٹھا لی اس نے
جسم کے پار مری روح تلک سناٹا
ہجر کی راکھ میں مٹی مری ڈھالی اس نے
موم بتی کے مقابل میں بٹھا کر اس کو
کھینچ لی پھر کوئی تصویر مثالی اس نے
منکشف ہو گیا اک اور مُہذب لمحہ
خود جلا کر بھی مری راکھ سنبھالی اس نے
میں سماعت کا ہنر بھول ہی جاؤں نہ سحر
چھو کے دیکھی ہے مرے کان کی بالی اُس نے
شہناز پروین سحر
No comments:
Post a Comment