کھڑکیاں کھول دو
ضبط کی کھڑکیاں کھول دو
میں کھِلوں جُون کی دوپہر میں
دسمبر کی شب میں
سبھی موسموں کے کٹہرے میں اپنی نفی کا میں اثبات بن کر کھِلوں
خواہشوں
نیند کی جنگلی جھاڑیوں
اپنے ہی خون کی دلدلوں میں کھِلوں
بھائیوں کی پھٹی آستینوں میں
بہنوں کے سجدوں میں
ماں باپ کے بے زباں درد میں ادھ جلے سگرٹوں کا تماشہ بنوں
ہر نئی صبح کے بس سٹاپوں پہ ٹھہری ہوئی لڑکیوں کی کتابوں میں
مصلوب ہونے چلوں
میں اپاہج دنوں کی ندامت بنوں
کھڑکیاں کھول دو
چھوڑ دو راستے
شہرِ بے خواب میں گھومنے دو مجھے
صبح سے شام تک، شام سے صبح تک
اس اندھیرے کی اک اک کرن چومنے دو مجھے
جس میں بیزار لمحوں کی سازش ہوئی
اور دہلوں سے نہلے بڑے ہوگئے
جس میں بے نور کرنوں کی بارش ہوئی
بحرِ شب زاد میں جو سفینے اتارے بھنور بن گئے
خواب میں خواب کے پھول کھلنے لگے، کھڑکیاں کھول دو
جاگنے دو مجھے
Sunday, October 9, 2016
اپاہج دنوں کی ندامت
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment