Wednesday, October 19, 2016

یہ وقت کیا ہے

یہ وقت کیا ہے
یہ کیا ہے آخر کہ جو مسلسل گزر رہا ہے
یہ جب نہ گزرا تھا
تب کہاں تھا
کہیں تو ہوگا
گزر گیا ہے
تو اب کہاں ہے
کہیں تو ہوگا
کہاں سے آیا کدھر گیا ہے
یہ کب سے کب تک کا سلسلہ ہے
یہ وقت کیا ہے
یہ واقعے
حادثے
تصادم
ہر ایک غم
اور ہر اک مسرت
ہر اک اذیت
ہر ایک لذت
ہر اک تبسم
ہر ایک آنسو
ہر ایک نغمہ
ہر ایک خوشبو
وہ زخم کا درد ہو
کہ وہ لمس کا ہو جادو
خود اپنی آواز ہو کہ ماحول کی صدائیں
یہ ذہن میں بنتی اور بگڑتی ہوئی فضائیں
وہ فکر میں آئے زلزلے ہوں کہ دل کی ہلچل
تمام احساس
سارے جذبے
یہ جیسے پتے ہیں
بہتے پانی کی سطح پر
جیسے تیرتے ہیں
ابھی یہاں ہیں
ابھی وہاں ہیں
اور اب ہیں اوجھل
دکھائی دیتا نہیں ہے لیکن
یہ کچھ تو ہے
جو کہ بہہ رہا ہے
یہ کیسا دریا ہے
کن پہاڑوں سے آ رہا ہے
یہ کس سمندر کو جا رہا ہے
یہ وقت کیا ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ چلتی گاڑی سے پیڑ دیکھو
تو ایسا لگتا ہے
دوسری سمت جا رہے ہیں
مگر حقیقت میں
پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں
تو کیا یہ ممکن ہے
ساری صدیاں
قطار اندر قطار اپنی جگہ کھڑی ہوں
یہ وقت ساکت ہو
اور ہم ہی گزر رہے ہوں
اس ایک لمحے میں
سارے لمحے
تمام صدیاں چھپی ہوئی ہوں
نہ کوئی آئندہ
نہ گزشتہ
جو ہو چکا ہے
جو ہو رہا ہے
جو ہونے والا ہے
ہو رہا ہے
میں سوچتا ہوں
کہ کیا یہ ممکن ہے
سچ یہ ہو
کہ سفر میں ہم ہیں
گزرتے ہم ہیں
جسے سمجھتے ہیں ہم
گزرتا ہے
وہ تھما ہے
گزرتا ہے یا تھما ہوا ہے
اکائی ہے یا بٹا ہوا ہے
ہے منجمد
یا پگھل رہا ہے
کسے خبر ہے
کسے پتا ہے
یہ وقت کیا ہے
یہ کائنات عظیم
لگتا ہے
اپنی عظمت سے
آج بھی مطمئن نہیں ہے
کہ لمحہ لمحہ
وسیع تر اور وسیع تر ہوتی جا رہی ہے
یہ اپنی بانہیں پسارتی ہے
یہ کہکشاؤں کی انگلیوں سے
نئے خلاؤں کو چھو رہی ہے
اگر یہ سچ ہے
تو ہر تصور کی حد سے باہر
مگر کہیں پر
یقیناً ایسا کوئی خلا ہے
کہ جس کو
ان کہکشاؤں کی انگلیوں نے
اب تک چھوا نہیں ہے
خلا
جہاں کچھ ہوا نہیں ہے
خلا
کہ جس نے کسی سے بھی ''کن'' سنا نہیں ہے
جہاں ابھی تک خدا نہیں ہے
وہاں
کوئی وقت بھی نہ ہوگا
یہ کائنات عظیم
اک دن
چھوئے گی
اس ان چھوئے خلا کو
اور اپنے سارے وجود سے
جب پکارے گی
''کن''
تو وقت کو بھی جنم ملے گا
اگر جنم ہے تو موت بھی ہے
میں سوچتا ہوں
یہ سچ نہیں ہے
کہ وقت کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا ہے
یہ ڈور لمبی بہت ہے
لیکن
کہیں تو اس ڈور کا سرا ہے
ابھی یہ انساں الجھ رہا ہے
کہ وقت کے اس قفس میں
پیدا ہوا
یہیں وہ پلا بڑھا ہے
مگر اسے علم ہو گیا ہے
کہ وقت کے اس قفس سے باہر بھی اک فضا ہے
تو سوچتا ہے
وہ پوچھتا ہے
یہ وقت کیا ہے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جاوید اختر

No comments:

Post a Comment