Sunday, October 9, 2016

مجھے شام آئی ہے شہر میں

میں سفر میں ہوں
مرے جسم پر
ہیں ہزار رنگوں کی یورشیں
کہیں سرخ پھول کھلا ہوا
کہیں نِیل ہے
کہیں سبز رنگ ہے زہر کا
مگر آئینہ شبِ شہر کا
مری ڈھال ہے!
جو وصال ہے
وہی اصل ہجر مثال ہے
مرے سامنے وہی راستے
وہی بام و در
وہی سنگ ہیں، وہی سولیاں
مجھے شام آئی ہے شہر میں

مجھے شام آئی ہے شہر میں
جہاں آسمان کی وسعتوں سے
سوال کاسہ بدست لوٹے تھے
یاد ہے!
شبِ حیلہ جو ، تجھے یاد ہے
وہ صلیب،
جس پہ مچان، نجمِ سحر کی تھی
وہ خطیب،
جس کا خطاب ابرو ہوا سے تھا
وہ صدائے ضبط عجیب تھی
کہیں کوڑھیوں کی شفا بنی
کہیں ابرو باد سے
چوبِ خشک تڑخ رہی تھی سویر سے!
بڑی دیر سے یہاں مرقدوں کے گلاب
پاوٗں کی دھول ہیں
میں سفر میں ہوں
مجھے شام آئی ہے شہر میں
مرے ہاتھ میں بھی کمان ہے
مجھے تیر دے

No comments:

Post a Comment