Tuesday, October 25, 2016

خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو

خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو

اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو !
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے میری سمت کہ جو!
اس سے پہلے بھی میری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی آگ در آئی ہے میری گلیوں میں !
پھر میرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے تو کون ہے ، میں کون ہوں ؟ آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میان و من تو پھیلی ہے
میرے بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے !
میرے سینے میں ہمیشہ اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار، تذبذب کی فضاء
پھر ہوئیں عام وہی اہل ریا کی باتیں
نعرہ حب وطن مال تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحشت کی طرح ، شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمان وفا ٹوٹے تھے
شیشہء دل کی طرح ، آئینہ جاں کی طرح
پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دئیے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی ردا !
صندلیں پیروں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا
دل نشین آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لیے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہن گل ، پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دو نیم
نوک دشنہ سے کھنچی تھی میری دھرتی پہ لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا !
اے میرے سوختہ جانو ، میرے پیارے لوگو !۔
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو
کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو

(شاعر: احمد فراز)

No comments:

Post a Comment