Tuesday, October 11, 2016

تم سے کچھ نہیں کہنا

ہم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ہر خواہش
زندگی کی آنکھوں سے
اشک بن کے بہہ جائے
تم سے کچھ نہیں کہنا

چاہے اب مکینوں پر
گھر کی ساری دیواریں
چھت سمیت گر جائیں
اور بے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں
خود ہی کیوں نہ دب جائیں
تم سے کچھ نہیں کہنا

کیسی نیند تھی اپنی
کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا

گھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں
کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سے
بچ کے بھی نکلنے کا
راستہ نہیں جاناں
جس طرح تمہیں سچ کے
لازوال لمحوں سے
واسطہ نہیں جاناں

ہم نے سوچ رکھا ہے
تم سے کچھ نہیں کہنا
تم سے کچھ نہیں کہنا

No comments:

Post a Comment