کبھی تو آؤ
اور آ کے دیکھو
نظارہ میری آرام گاہ کا
ہجر کا بستر
جفا کا تکیہ
دُکھوں کی چادر
نہ نیند آئے
نہ چین آئے
سلگتی آنکھیں
دہکتے آنسو
جو خواب دیکھیں
وہ ٹوٹ جائے
تھکن بہت ہے
جلن بہت ہے
ادھورےپن کی
چُبھن بہت ہے
نہ کار دنیا
نہ کار جاناں
نہ کوئی عذر
نہ کوئی بہانہ
عجیب آتش فشاں سی ہلچل
کہ جس کی رُت میں ہے تشنہ بادل
تیرگی ہے خامشی ہے
نیند کی مجھ سے دشمنی ہے
بدلتے پہلو یوں رات گزرے
کہ جب صبح کا دیدار ہوگا
ایک اور شب کا انتظار ہوگا
No comments:
Post a Comment