رات کی تاریکی میں
کوئی راستہ
جا نکلتا ہے، ان زمینوں کو
جن پر، ہمارے لیے
آسودگی کی نہریں بہتی ہیں
اور جہاں
کوئی اپنے کشادہ بازو پھیلاۓ
ہمارا انتظار کرتا ہے
کوئی راستہ، لق و دق صحرا کی جانب
جس میں پیاس
حلق میں کانٹے بھر دیتی ہے
اور سار بانوں کے گیت
دل سے لپٹ کر آنسو بہاتے ہیں
کوئی جا نکلتا ہے
دریا کے کناروں کو
آہستہ خرام لہروں کو
جن پر ملاح، پتوار چلاتے
اور دور سے ہاتھ ہلاتے ہیں
کوئی راستہ جا نکلتا ہے
ان صحنوں کی طرف
جن میں ہم کبھی آباد تھے
ان کمروں کو
جن میں لالٹین کی مدھم روشنی
ہمارے سایوں کو لمبا کر دیتی ہے
کوئی ان دیاروں کی جانب
جن کے خدوخال، پہچانے نہیں جاتے
اجنبی چہرے
دھند میں تیرتے پھولوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں
کوئی راستہ، مٹی میں اڑتا چلا جاتا ہے
کوئی محض ایک پگڈنڈی، خوف کے کہرے میں
جس پر چلتے ہوئے
قدم ڈولنے لگتے ہیں
بھاگنا چاہیں، تو بھاگا نہیں جاتا
کوئی راستہ، راستہ نہیں لگتا
دھوئیں میں گرتے ساۓ کی صورت
بس آنکھیں بھر آتی ہیں
پاؤں تھم جاتے ہیں
اور ایک راستہ،
اس کے گھر کی سونی دہلیز کو جاتا ہوا
جہاں دیواروں اور اندھیرے کے عقب میں
آنسو بہاتے، معدوم ہوتے ہوئے
میں ۔۔۔ اسے دیکھتا
اور آوازیں دیتا ہوں
اس راستے پر
سب سے زیادہ روشنی ہے
رات کی تاریکی میں
Thursday, October 27, 2016
رات کی تاریکی میں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment