ہمیں معلوم ہے
یہ شام بکھر جاے گی
اور یہ رنگ
کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے
یہ زمیں دیکھتی رہ جاے گی
قدموں کے نشاں
اور یہ قافلہ....
ہستی کی گزرگاہوں سے
کسی انجان جزیرے کو نکل جاے گا
جس جگہ آج
تماشا ے طلب سے ہے جوان
محفل رنگ و مستی
کل یہاں ، ماتم یک شہر نگاراں ہو گا
آج جن رستوں پہ
موہوم تمنا کے کے درختوں کے تلے
ہم رکا کرتے ہیں
ہنستے ہیں
گزر جاتے ہیں
ان پہ ٹوٹے ہوے پتوں میں ہوا ٹھہرے گی
آج ..جس موڑ پہ ، ہم تم سے ملا کرتے ہیں
اس پہ کیا جانیے
کل کون رکے گا آ کر ...
آج اس شور میں شامل ہے
جن آوازوں کی دل دوز مہک
کل یہ مہکار اتر جاے گی
خوابوں میں کہیں ...
گھومتے گھومتے تھک جائیں گے
ہم --- فراموش زمانے کے ستاروں کی طرح
ارض موجود کی سرحد پہ
بکھر جائیں گے ....
اور کچھ دیر ، ہماری آواز
تم سنو گے تو ٹھہر جاؤ گے
دو گھڑی
رک کے گزر جاؤ گے ، چلتے چلتے
اور سہمے ہوے چوباروں میں
انہی رستوں ، انہی بازاروں میں
ہنسنے والوں کے
نئے قافلے آ جائیں گے !
Saturday, October 15, 2016
یہ شام بکھر جاۓ گی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment