بھر کے لایا تھا جو دامن میں ستارے صاحب
لے گیا لوٹ کے سب خواب ہمارے صاحب
وہ تو آسودہ ھے حلقہ یاران میں ابھی
یاد آئیں گے کہاں درد کے مارے صاحب
ہجر میں سانس بھی رک رک کے چلا کرتی ھے
کاش دے جاتا وہ کچھ سانس اُدھا رے صاحب
کچھ خطاؤں کی سزا عشق کی صورت پائی
ہم نے دنیا میں ہی کچھ قرض اتا رے صاحب
ہم جو نکلے کبھی بازار میں کاسہ لے کر
بھیک میں بھی ملے درد کے دھا رے صاحب
اب بھی جلتے ہیں تیری یاد میں اشکوں کے چراغ
شب کو معلوم ہیں سب زخم ہما رے صاحب
میرا رشتوں کی تجارت پہ ایمان نہ تھا
دامنِ ِ مصر بکی عوض تمہارے صاحب
یاد کے دشت میں پھرتی رہی آبلہ پا
آ کے تو دیکھ کبھی پاؤں ہمارے صاحب
بارہا اسکو بچھڑتے ھوئے کہنا چاہا
روٹھ کے بھی نہیں ہوتے ہیں گزار ے صاحب
تیرے قدموں میں سبھی چاند ستارے رکھ دوں
آ کبھی لوٹ کے تو شہر ہما رے صاحب
No comments:
Post a Comment