لہو کی داستانوں پر
کرو ماتم زمانوں پر
سنو میں چیختا کب ہوں
رکھو مت ہاتھ کانوں پر
بڑے دن بعد آ ئے ہیں
سیہ چھالے زبانوں پر
ہوس مہنگی نہیں ورنہ
بدن بکتے دکانوں پر
سر ِ صحرا لٹے تھے جو
ہو رحمت ان گھرانوں پر
اکیلا گنگناتا ہے
پرندہ اک چٹانوں پر
ہنسو موجودگاں پر اور
لکھو نوحے پرانوں پر
چمک اٹھیں بجھے آنگن
گرے بجلی مکانوں پر
بدن میں خم ہے کچھ ایسے
فلک ہو جیسے شانوں پر
چراغوں نے کمر کس لی
ہوا کے تازیانوں پر
ازل سے مسکراتی ہیں
زمینیں آسمانوں پر
غموں پر کر نچھاور غم
خزانے رکھ خزانوں پر
سفر ایسا ملا ہم کو
بدن وارے تھکانوں پر
رہے گی حشر تک نازاں
محبت ہم جوانوں پر
نجانے کیوں ہنسی آئے
مجھے غمگین گانوں پر
بھرو نیند یں خراٹوں سے
چڑھاو دکھ سرھانوں پر
فقیہہ حیدر
No comments:
Post a Comment