Tuesday, October 11, 2016

خواب اور خواہش میں

خواب اور خواہش میں
فاصلہ نہیں ہوتا
عکس اور پانی کے درمیان آنکھوں میں
آئینہ نہیں ہوتا
سوچ کی لکیروں سے
شکل کیا بناؤ گے
درد کی مثلث میں
زاویہ نہیں ہوتا
بےشمار نسلوں کے
خواب ایک سے لیکن
نیند اور جگراتا
ایک سا نہیں ہوتا
جوہری نظاموں میں
نام بھول جاتے ہیں
کوڈ یاد رہتے ہیں
ایٹمی دھماکوں سے
تابکار نسلوں کے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
شہر ڈوب جاتے ہیں
مرکزے بکھرتے ہیں
دائرے سمٹتے ہیں
رقص کے تماشے میں
ارض و شمس ہوتے ہیں
اور خدا نہیں ہوتا
صد ہزار سالوں میں
ایک نور لمحے کا
ٹوٹ کر بکھر جانا
حادثہ تو ہوتا ہے
واقعہ نہیں ہوتا
ہسٹری تسلسل ہے
ایک بار ٹوٹے تو
دوربیں نگاہیں بھی
تھک کے ہار جاتی ہیں
گمشدہ زمینوں سے
منقطع زمانوں سے
رابطہ نہیں ہوتا
ننھے منے بچوں کے
نوبہار ہاتھوں میں
پھول کون دیکھے گا
آنے والی صدیوں میں
تیری میری آنکھوں کے
خواب کون دیکھے گا
زیر آب چیزوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا

No comments:

Post a Comment