یوں تو ہم روز ہی مزدوروں کو چوک چوراہوں پر دیکھتے ہیں جن کی سوالی آنکھیں ہر گزرنے والے شخص اور قریب رکنے والی گاڑی کو اس حسرت اور امید سے دیکھتی ہیں کہ شاید یہ آج کے لئیے اس کے بچوں کی روٹی کا وسیلہ بن جائے, مگر مجھے آج تک وہ غریب جوان مزدور نہیں بھولتا جس کا میں نے تین سال قبل انٹرویو کیا تھا, اس کی کہانی انتائی سادہ سچی اور دل کو ہلا کر رکھ دینے والی تھی مگر کوئی دل والا ہو تب نا, دل میں تو احساس ہوتا ہے دوسروں کے درد کو سمجھنے کا مگر ہمارا دل تو مر چکا شاید. اس مزدور کے ہاتھ کام کرتے کرتے پھٹ چکے تھے, خون رس رہا تھا مگر وہ مکمل دل جمعی سے کام کر رہا تھا. مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھے بتایا تھا " بھائی پانی سے تر کی ہوئی اینٹیں ہاتھ سے جب اوپر کام کرنے والے راج مستری تک پھینکی جاتی ہیں تو انگلیوں کی پوریں کٹ جاتی ہیں " مگر وہ پھینک رہا تھا، خون رس رہا تھا اس کے ہاتھوں سے, مگر اسے تو احساس ہی نہیں تھا اس کا. اسے احساس تھا اس بوڑھے باپ کا جو شہر سے دور گاؤں میں اس انتظار میں چار پائی پر پڑا تھا کہ اس کا بیٹا آج ضرور اس کے لئے دوا لائے گا. اسے احساس تھا ان بچوں کا جن کے بارے میں اس نے مجھے یوں بتایا تھا" بھائی جدوں اسیں شام کو جاتے ہیں گھر, تاں بچے ابو ابو کر کے ہماری ٹانگوں سے چمڑ کر شے شے ( کھانے کی چیز ٹافی وغیرہ ) منگدن, پر ہمارے کول پیسے نہیں ہوتے, فر ہم تے بچے مل کر رو پڑتے ہیں " ... آج اس لئیے یہ لکھا کہ میں ابھی باہر سڑک پر نکلا تو کئی سوالی آنکھوں کو پھر دیکھا...
No comments:
Post a Comment