Wednesday, December 3, 2014

ان کھیلی بازی کی ہار

ان کھیلی بازی کی ہار

دس برس پہلے
ایسی ہی کسی رت میں
دو خواب سی آنکھوں نے
اک بات کہی مجھ سے
اس بات کے مطلب کے
اڑتے ہوئے رنگوں کا مفہوم سمجھنے کو
کیا شام وسحر گزرے
اس رمز کی رم جھم میں
میں روح تلک بھیگا
سر سبز ہوا ایسا
موسم مری گلیوں میں
خوشبو کی طرح پھیلے
شاداب نظر گزرے
وہ بات رہی روشن بھیڑ میں لمحوں کی
جگ مگ سے ستاروں کی
جس طرح قمر گزرے

دس برس پہلے
اک شام ہوئی ایسی
جس شام کے پہلو
جھرنوں کا ترنم تھا
پھولوں کی سواری تھی
کچھ ایسے لگا جیسے اس لطف کا صدقہ تھا
اس شام سے پہلے تک جو عمر گزاری تھی
وہ سامنے بیٹھا تھا اور
اس کی گھنی پلکیں
جس وقت مری جانب اٹھنے کو لرزتی تھیں
اک پل کے لیے جیسے
موقوف سا ہو جاتا
اس دل کا دھڑکنا بھی
لمحوں کا گزرنا بھی
دریاؤں کا چلنا بھی
ٹوٹے ہوئے جملے میں
اک رکتا ہوا لہجہ
آواز کے جادو کا ہر انگ سمو جاتا

دس برس پہلے
بانہوں کا یہی حلقہ
(ویران و تہی حلقہ)
اک چاند کا ہالہ تھا
زلفوں کے اندھیرے میں چہرے کا اجالا تھا
سانسوں کی تمازت میں
پھولوں کا بدن جیسے
اک تھان سا ریشم کا جو کھلتا چلا جائے
محجوب سے چہرے پر
موتی وہ پسینے کے
ہونٹوں سے بس جن کو کوئی چنتا چلا جائے
ساز دل مضطر کو
چوڑی کی کھنک جیسے مضراب کی صورت تھی
چڑیوں کے چہکنے میں
پھولوں کے مہکنے میں
اک رنگ کا میلہ تھا
اک خواب کی صورت تھی
انگلی سے اگر انگلی
چھو جائے کبھی یوں
وہ لمس کی لذت سے سرشار سا ہو جانا
ہلکی سی کسی رنجش
چھوٹی سی جدائی سے
نیندوں سے بگڑ جانا
تکیوں کو بھگو جانا
اس وقت یہ لگتا تھا
دھرتی کے خزانوں میں
امبر کے تلے جو کچھ ہے اپنا ہے
اس وقت جو آنکھیں ہیں
اس وقت جو سپنا ہے
تا صبح ابد اب تو ان کا ہی زمانہ ہے
سنسار کا ہر کونا چاہت کا ٹھکانہ ہے
ہرنقش وفا جیسے رنگوں کی کہانی ہے
خوشبو کا فسانہ ہے
اک وصل کے رستے پر ہر خواب روانہ ہے

اس خواب کو دیکھے اب دس برس گزرے
(اس زہر کو پیتے اب اک عمر ہوئی جاناں )
اس دہر کی وسعت میں تم جانے کہاں ہو گے
انسان زمانے کی منہ زور ہواؤں میں
اس طرح بھٹکتے ہیں
آندھی میں اڑیں جیسے بے سمت سفر پتے
اس وقت کی وحشت میں تم جانے کہاں ہو گے

دس برس پہلے
اس ہجر کے دریا کے اک ریت کنارے پر
اک پل کے لیے ہم تم کچھ دیر رکے
لیکن
اب تک نہ کھلا مجھ پر
کس وقت چھوا ہم کو اس موج کے ہاتھوں نے
جس موج کے جادو نے مدہوش رکھا مجھ کو
تم پار گئے جاناں
کیا کھیل تھا وہ جس میں
ہم دونوں نہیں کھیلے
اور ہار گئے جاناں
اور
ہار گئے جاناں
ہار گئے
جاناں

No comments:

Post a Comment