کیا وہ سچ مُچ شرمندہ ہے؟
وہ جو اِک دوشیزہ ہے،
ڈھلتی شام جسے
ہر روز افسُردہ کر دیتی ہے
اماوس راتوں میں جو
دور تلک پھیلی
زرد پتوں میں دفن
سُنسان سڑک پر
دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں
ماضی کی بیڑیوں میں جکڑی
درد کی وادی سے گزرتی
کرب کی بلند وبالا چوٹیاں پھلانگتی ہوئی،
اِک آشنا عکس کو ڈھونڈتی ہے،
وہ دوشیزہ جسے
دن کے اُجالے
یادوں کی گرم، تپتی ریت میں جُھلسا دیتے ہیں،
وہ جو اِک دوشیزہ ہے،
جو ہنسے بھی تو غم کی ملکہ لگے،
جسکی بھوری آنکھوں میں غم ہلکورے لیتے ہے
آج میں چاند سے پوچھوں گا
کیا وہ سچ مُچ شرمندہ ہے؟
No comments:
Post a Comment