سنو!
بہت مصروف ہو تم بھی
مجھے بھی سچ کہوں تو
بہت سے کام کرنے ہیں
ابھی تشکیک باقی ہے
میری تحقیق باقی ہے
کئی غز لیں ادھوری ہیں
مری ماں کو شکایت ہے
میں کھانا بھول جاتا ہوں
کتابوں کو الگ شکوہ
کہ بے ترتیب رہتی ہیں
مگر تم جانتی ہو نا
تمھاری یاد میں گم صم
میں پھروں بےعمل رہ کر
کئی سپنے سجاتا ہوں
تمھارے ہاتھ ہاتھوں میں
میں دھیرے سے دباتا ہوں
سنو! جو فرض ہیں میرے
توجہ سے نبھاتا ہوں
مگر یہ کیا؟
میری یہ سردمہری اور بظاہر بے عمل رھنا
کسی کو بھی نہیں بھاتا
گِلے سب کے بجا لیکن
فقط اِس پہ ہی کیا موقوف ہے
بس اب اتنی گزارش ہے
تمھیں گر چند لمحوں کی
فراغت ہو
تو کچھ کاموں کو بن سوچے
نہ اتنے جو ضروری ہوں
انہیں تم کل پہ رکھ دینا
مری خاطر چلی آنا
مرا یہ بے عمل رہنا
تمہی موقوف کر جاؤ
مجھے مصروف کر جاؤ
Wednesday, December 3, 2014
سنو! بہت مصروف ہو تم بھی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment