Friday, December 12, 2014

یہ جو شام ڈھل رہی ھے

یہ جو شام ڈھل رہی ھے
اسے سہل بھی نہ جانو
یہ ٹھہر گئی جو دل میں
یہی شب ہلاکتوں کی
یہی دو پہر کڑی ھے

پس ِگردِ عہدوپیماں
یہ جو ہجر کی گھڑی ھے
یہ فشار ِ جاں کا موسم
یہ جو دل گرفتگی ھے
یہ جو وہم ھے لہو میں
یہ جو سہم آنکھ میں ھے
یہ سناں سی وسوسوں کی
جو خیال مں گڑی ھے
یہ جو اک خلش وفا کی
یہ جو ان کہی کہانی
مرے دل میں رہ گئی ھے

یہ تھکن رہ ِ جنوں کی
جو اتر گئی رگوں میں
یہ تری مری خوشی ھے

یہ چراغ چاہتوں کے
جو ہوا میں جل رہے ہیں
انہیں کب تلک سنبھالیں؟

چلو پھر سے توڑ ڈالیں
وہ تمام عہد و پیماں
کہ میں تجھ میں جی رہا ہوں
کہ تو مجھ میں بس رہا ھے

چلو پھر سے سوچتے ہیں
کہ میں تجھ سے نا شناسا
کہ تو مجھ سے اجنبی ھے

وہ جو رسم ِ دوستی ھے
وہ رہے تو جاں سلامت
نہ رہے تو پھر بھی جاناں
تیرا غم سنبھالنے کو
ابھی زندگی پڑی ھے۔

No comments:

Post a Comment