Friday, December 12, 2014

نہ ہے ابتدا میرے عشق کی

نہ ہے ابتدا میرے عشق کی
, نہ ہے انتہا میرے عشق کی
میرا عشق ہی ہے میرا خدا 
مجھے اور کوئی خدا نہ دے

مجھے بار بار صدا نہ دے ،
میری حسرتوں کو ہوا نہ دے
میرے دل میں آتش عشق ہے ،
میری آگ تجھ کو جلا نہ دے

میرا عشق ہے میری زندگی 
، میرا عشق ہے میری بندگی
مجھے عاشقوں میں شمار کر ،
مجھے عاشقی کا صلہ نہ دے

میں گدا نہیں ہوں فقیر ہوں ،
میں قلندروں کا امیر ہوں
مجھے تجھ سے کچھ نہیں چاہئیے ،
مجھے مانگنے کی ادا نہ دے

مجھے درد و سوز و گداز دے ،
مجھے اپنے غم سے نواز دے
تیرا درد بھی میرے دل میں ہو ،
مجھے درد دل کی دوا نہ دے

جنہیں جنوں کا غرور ہے ،
مجھے بے خودی میں سرور ہے
مجھے بار بار نہ یاد آ ،
مجھے ہو سکے تو وفا نہ دے

No comments:

Post a Comment